ترے آتے ہی کنگورے گرے ایوان کسری کے

ترے آتے ہی کنگورے گرے ایوان کسری کے

ہر اک آتش کدہ افسوس سے بھرنے لگا آہیں


یہ کیسا انقلاب آیا کہ آتش بن گیا پانی

ترے انوار اک زندہ شہادت کی طرح روشن


نگاہِ کفر و ظلمت ہو گئی اندھی

نگام کفر نے انوار کی بارش نہیں دیکھی


سماعت چھین لی کفار کی رعد ولادت نے

شہاب سرخ کی مانند شعلوں کی ہوئی بارش


کہ جن کے خوف سے بت گر پڑے بے اختیاری میں

شیاطین اس طرح بھاگے کہ جیسے ابرہہ کی فوج بھاگی تھی

شاعر کا نام :- ابو الخیر کشفی

کتاب کا نام :- نسبت

دیگر کلام

بن تیرے ذکر دے گل کوئی میں جان دا سوہنیا ہور نہیں

ترستی تھیں ترے دیدار کو

مِری منزلت مِری آبرو نہ سخن سے ہے نہ قلم سے ہے

دیتی نہیں ہیں جلوتیں

کعبے سے اٹھیں جھوم کے رحمت کی گھٹائیں

جنہیں تیرا نقشِ قدم مِلا ‘ وہ غمِ جہاں سے نکل گئے

کب مدینے میں جانِ جاں ہم سے

روتی ہوئی آنکھیں ہیں جلتا ہوا سینہ ہے

شرف ملا بشریّت ذو الاحترام ہُوئی

احمد کہوں کہ حامدِ یکتا کہوں تجھے