زمین کے ہوں کہ باشندے آسماں والے

زمین کے ہوں کہ باشندے آسماں والے

نبی کے نور کا صدقہ ہے دوجہاں والے


پکڑ لو دامنِ آلِ نبی، ہمارے لیے

حضور چھوڑ گئے ہیں یہاں جناں والے


ہمارے دل کی جبیں پر ہے داغِ عشقِ نبی

کہ ہم نہیں ہیں جبیں پر فقط نشاں والے


خدا کے فضل سے آقا ہیں قاسمِ نعمت

درِ حضور سے پاتے ہیں سب جہاں والے


نبی کے عشق میں مر کر بھی لوگ زندہ ہیں

بہت سے آئے گئے جھوٹی داستاں والے


اُسی زمین پہ کرتا ہے آسماں بھی رشک

جہاں زمین میں ہیں سیرِ لامکاں والے


نبی کے عشق سے مطلب نہیں تو کیا مطلب

نماز والے وہ ہوں یا کہ پھر اذاں والے


زمیں سے تا بہ فلک نور کی بہاریں تھیں

تھے لا مکاں کی سیاحت میں جب مکاں والے


نبی کی نعت فصاحت کے ساتھ کہتے ہو

شفیقؔ تم بھی ہو کیا داغؔ کی زباں والے

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

مشغلہ ہو یہی بس یہی رات بھر

اس کی لوری کے لیے لفظ کہاں سے لاؤں

کہاں مُمکن کہ ہم جیسے بھی نعتِ مُصطفٰےْ لکھیں

اکھیاں کھول تے سہی

کملی والیا شاہ اسوارا ، ائے عربی سلطانان

کم نصیبوں کو ملے نوری سہارا یا نبیؐ

عشق و جنوں کی آگ میں

جنہاں فقیراں دے لج پال پیر ہوندے نیں

کس طرح چاند نگر تک پہنچوں

منزلیں گم ہوئیں