ذکرِ سرکار سے کچھ ایسی ضیا پائی ہے

ذکرِ سرکار سے کچھ ایسی ضیا پائی ہے

چاندنی جیسے مرے دل میں اُتر آئی ہے


میرے ادراک میں مہکی ہیں ثنا کی کلیاں

گلشنِ طیبہ سے اپنی بھی شناسائی ہے


مدحتِ شاہ میں مشغول رہوں شام و سحر

دل مرا ایسی سعادت کا تمنائی ہے


یہ ہنر ہو کہ میں اشعار کی لڑیاں باندھوں

منتظر کب سے مرے خامے کی رُشنائی ہے


اب تو لگتا ہے کہ انوار کی بارش ہوگی

اُجلی اُجلی ہے فضا نوری گھٹا چھائی ہے


تجھ کو اے ناز بلاتے ہیں رسولِ عربی

آج طیبہ سے یہ پیغام صبا لائی ہے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

جس راہ توں سوہنیا لنگھ جاویں اوہدی خاک اٹھا کے چُم لیناں

مصطفٰی کے بنا بسر نہ ہوئی

یا نبی ہم پر عنایت کیجئے

یَا اَللہُ یَا رَحْمٰنُ یَا رَحِیْم

انہی میں ہم بھی ہیں جو لوگ میہمان ہوئے

ہر کوئی جہاں میں جو شاد کام ہے احسؔن

ہم خاک ہیں اور خاک ہی مَاوا ہے ہمارا

ذکرِ سرکارؐ سے جب ذہن ترو تازہ ہو

آراستہ کروں گا یوں اپنے سفر کو میں

جو نبی کی مِرے تعظیم نہیں کرتا ہے