ظہورِ سرورِ کون و مکاں ، ظہورِ حیات

ظہورِ سرورِ کون و مکاں ، ظہورِ حیات

انہی کے فکر کی خیرات ہے شعورِ حیات


وہ جن کی شان سے ارض و سما کی آرائش

وہ جن کے دم سے فروزاں ہے نزدودُورحیات


انہی کے حسن کا پر تو ہے عالمِ امکاں

انہی کے جلووں کا عکسِ جمیل نورِ حیات


انہی کے راہ سے ملتی ہے منزل عرفاں

انہی کی چاہ سے وابستہ ہے سرورِ حیات


جمال اُن کا ہے تائبؔ فروغِ دیدہ وراں

مقال اُن کا سکوں بخشِ نا صبور ِ حیات

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

حاصلِ زیست ہے اُس نُور شمائل کی تلاش

خاک بوس اُن کے فلک زیرِ قدم رکھتے ہیں

کیسا اُمّت کا تھا یہ غم آقاؐ

ہے ہر تھاں تے جلوہ نمائی وی تیری

مُقدر کو مرے بخشی گئی رحمت کی تابانی

دِل پہ اُن کی نظر ہو گئی

میں کراں ربّا ثنا سرکارؐ دی

کرتے ہیں کرم جس پہ بھی سرکارؐ ِ مدینہ

کہکشاں کہکشاں آپ کی رہگذر

جنت دیاں بھاویں گھلیاں نے تے بھاویں عرش معلیٰ اے