نبیوں کے نبی
اُمّی لقبی
کونین کے والی
میں تیرا سوالی
کر مجھ کو عطا
تھوڑی سی ضیا
تارے تِرے موتی
چندا تری تھالی
یہ کس نے کہا
سایا ہی نہ تھا
مجھ کو نظر آیا
ہر سُو تِرا سایہ
جو تیرا ہُوا
رب اُس کا ہُوا
پائی ہے خُدائی
جس نے تجھے پایا
اے سَرورِ دیں
شب جس کی نہیں
بانٹے وہ سویرا
کملی تِری کالی
ساقی مِرا تو
بھر میرا سُبو
دریا ہوں کہ جھیلیں
سب تیری سبیلیں
خُورشیدِ حرا
ٹھوکر سے گِرا
آہوں کی طنابیں
دُوری کی فصیلیں
فردوس مرا
روضہ ہے تِرا
پلکوں میں پرودے
دِیوار کی جالی
محبوبِ خُدا
اے نُورِ ھُدا
چمکے مِرا سِینہ
بن جائے مدینہ
کرتی ہے انا
اب تیری ثنا
اس پار لگا دے
لفظوں کا سفینہ
رکھ میرا بھرم
دے شاہِ اُمم
حسّان کی نظریں
آواز بلالی
بس ایک یہی
حسرت ہے مِری
دِل موت سے پہلے
کچھ تجھ سے بھی کہہ لے
بھڑکے جو طلب
ہو دَرد عجب
اب تیرا مظفر
یادوں سے نہ بہلے
رحمت کی نظر
ہو جائے اگر
بن جائے گلستاں
سُوکھی ہُوئی ڈالی
شاعر کا نام :- مظفر وارثی
کتاب کا نام :- امی لقبی