سفر مدینے کا کچھ ایسا مرحلہ تو نہیں

سفر مدینے کا کچھ ایسا مرحلہ تو نہیں

میں بے بصر سہی ‘ لیکن شکستہ پا تو نہیں


وہاں سے غیر بھی پیاسے کبھی نہیں آتے

وہ شہرِ ساقئ کوثرﷺ ہے کربلا تو نہیں


یہی وہ در ہے جہاں بے طلب بھی ملتاہے

مجھی کو دیکھوکبھی میں کچھ کہاتو نہیں


بس ایک ہادی برحقﷺ ہے راہِ کعبہ میں

قدم قدم پہ وہاں اتنے رہنما تو نہیں


وہاں بھی اُن کی تجلّی ‘ یہاں بھی اُن کی ضیا

شہود و غیب کا عالم جُد ا جُدا تو نہیں


ہزار شاہوں سے اچھا ہے ان کے در گا گَدا

کہ اس کے دل میں غمِ پرسش و سزا تو نہیں


میں سوچتا ہوں کہ دامن وسیع تر کرلوں

کرم کی ان کے مگر کوئی انتہا تو نہیں


عمل بھی شرط ہے اقباؔل عشق صادق کی

تمہارا فرض فقط مدحت و ثنا تو نہیں

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

ایمان کی بنیاد محمدؐ کی محبت

مجھ سے کیسے ہو بیاں عظمت رسول اللہ کی

بحرو بر، برگ و شجر، پانی و پتھر خاموش

دنیا میں تیرے جیسا دوسرا کہیں نہیں

نہ اس جانب نظر رکھنا نہ اُس جانب نظر رکھنا

عرب کا مہ لقا ہے اور مَیں ہُوں

رب کی ہرشان نرالی ہے

کرم کی اِک نظر ہو جانِ عالم یارسول اللہؐ

کیوں اسے حشر میں اندیشہء رسوائی ہو

بے چین ہوں مدت سے مجھے چین عطا ہو