نہ اس جانب نظر رکھنا نہ اُس جانب نظر رکھنا

نہ اس جانب نظر رکھنا نہ اس جانب نظر رکھنا

کوئی مشکل پڑے تو تم نظر سرکار پر رکھنا


جو بچنا چاہتے ہو تم غم دنیا و عقبی سے

تو ان کی یاد کو دل میں بسا کر عمر بھر رکھنا


خزانے رحمت حق کے جہاں کو بانٹنے والے

طلب گار کرم ہوں مجھ پہ بھی آقا نظر رکھنا


خدا کے قرب کی منزل پر پہنچو گے بآسانی

نبی کا عشق تم اپنے ہمیشہ ہم سفر رکھنا


تری یادوں کی مشعل سے ہے میرے دل کا گھر روشن

ہوائے غیر سے آقا بچا کر میرا گھر رکھنا


نبی کے آستاں کی حاضری کا تھا عجب عالم

زباں سے کچھ نہ کہنا اور وہ آنکھوں کا تر رکھنا


ادھر رکھنا ادھر رکھنا جہاں سرکار کی مرضی

مگر اک عرض ہے میری جدھر رکھنا خبر رکھنا


تری نعتوں نے بخشی ہے نیازی کو بڑی عزت

مرے آقا سر محشر بھی اس کو معتبر رکھنا

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

اللہ نے یوں شان بڑھائی ترے در کے

کچھ ایسے صاحبِ اعزاز ہیں آپؐ

لوحِ دل بے حرف ہے اس پر لکھا کچھ بھی نہیں

مِری منزلت مِری آبرو نہ سخن سے ہے نہ قلم سے ہے

ابھی قدموں کو چُوما ہے ابھی چہرہ نہیں دیکھا

دیکھا سفر میں آبلہ پا، لے گئی مجھے

حضور ؐطیبہ کے رات اور دن مجھے بہت یاد آرہے ہیں

دین کا مجرم تھا وہ

صد شکر اتنا ظرف مری چشمِ تر میں ہے

آپ کی یادوں سے مہکی دل کی دھڑکن رات بھر