السّلام اے مِلّتِ اسلامیہ کے جاں نثار
السّلام اے پیرِ رومی ؒ کے مُریدِ با وقار
وہ تصّور جو تجھے رکھتا تھا پیہم بے قرار
اس تصّور کا کیا ہے کِس نے دامن تار تار
رنگ و بُو میں اُڑ گئی ہے اُس چمن کی آبرو
جس چمن میں تھی ترے نغمات سے فصلِ بہار
آرزو کا مُدّعا کیا تھا ؟ شکستِ آرزو ؟
کارواں کو کیا ہُوا حاصِل بجز گرد و غُبار
کِس کی غفلت سے شکستہ ہو گئے جام و سبو
میکدے کا میکدہ کیوں ہوگیا ہے سوگوا ر
آہ اےا قبؔال تو واقف نہ تھا اس راز سے
اس وطن کے راہبر تجھ کو کریں گے شرمسار
لَا اِلٰہ کے دم سے تھا میرے وطن کا اتحّاد
لَا اِلٰہ کو چھوڑنے کا ہے نتیجہ انتشار !
اے خودی کے رازداں فریاد ہے فریاد ہے
ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تیرا انوکھا شاہکار !
اے شریکِ زُمرہ لَا یَحزنون تو ہی بتا ،
نوجوانانِ چمن کیوں ہو گئے ہیں اشکبار
اِفتخارِ ملک و ملّت شاعرِ اِسلام سُن !
یاد کرتے ہیں تجھے لاہور کے لیل و نہار
شمعِ آزادی جو تیری فِکر سے روشن ہُوئی
عزمِ تازہ مانگتی ہے حُریّت کی یادگار
کیا کہے واصؔف کہ یہ اقؔبال کا پیغام ہے
ہوشیارِ اہلِ جنوں ، اہلِ خرد سے ، ہوشیار
شاعر کا نام :- واصف علی واصف
کتاب کا نام :- شبِ چراغ