اے زائرینِ کعبۂ امّت خُوش آمدید
اے رہروانِ حجِّ سعادت خُوش آمدید
اے حاجیانِ مرکزِ توحید السّلام
اے سَالکانِ منزلِ امّید السّلام
دیکھی تُمہاری چشمِ مُبارک نے وہ زمیں
جِس پر خمیدہ رہتی ہے افلاک کی جبیں
قرآن جِس زمین پہ نازل کیا گیا
جس پر ہمارے دین کو کامل کیا گیا
جبریل اُڑتے پھرتے تھے جس کی فضاؤں میں
آیاتِ حق کی گُونج تھی جِس کی ہَواؤں میں
وہ سرزمینِ ذی شرف و پاک و محترم
چُومے ہیں جِس نے رحمتِ کونینؐ کے قدم
وہ سرزمینِ قدس وہ اسلام کا وطن
جس سے ملی زمانے کو تہذیب و علم و فن
صدق و خلُوص و حکمت و ایمان و آگہی
احسان و عفو و عدل و مساوات و داوری
صبر و رضا و طاعت و تسلیم و بندگی
فقر و غنا و رحمت و ایثار و دلبری
توحید کا جمال، نبّوت کی چاندنی
اخلاق کے چراغ، تمدّن کی روشنی
پھیلا جو چار سُو یہ اُجالا یقیں کا ہے
احسان ہر زمیں پہ اِسی سرزمیں کا ہے
دیکھا ہے تُم نے کعبہء اسلام کا جمال
تُم نے مشاہدہ کیا توحید کا جلال
حاصِل ہُوئی زیارتِ شہرِ رسولؐ بھی
دل کا کنول کھِلا ہے تمنّا کے پھُول بھی
دیکھی ہیں تُم نے گنبدِ خضرا کی رفعتیں
لُوٹی ہیں تُم نے خطّۂ رحمت کی برکتیں
چُومی ہیں تُم نے روضۂ اقدس کی جالیاں
نذرِ حبیبؐ کی ہیں درودوں کی ڈالیاں
مَے خانۂ رسُول کے ساغر پئے ہُوئے
آئے ہو بے خودی کے خزانے لئے ہُوئے
اُس سرزمینِ پاک کے تحفے بھی ساتھ ہیں
تسبیحیں بھی ہیں ساتھ، لبادے بھی ساتھ ہیں
زمزم تمہارے پاس ہے خرما تمہارے پاس
خاکِ شفا و مہر و مصلّا تُمہارے پاس
یہ اتنے پاک تحفے ہیں مَیں ایک بھی جو پاؤں
آنکھوں سے چُوموں سر پہ رکھوں سینے سے لگاؤں
اِن تحفہ ہائے قدس کا ثانی یہاں کہاں
یہ تحفے تو ہیں شہرِ نبیؐ کی نشانیاں
ہر تحفہ اِن میں ایسا ہے اعلیٰ کہیں جِسے
لیکن اک اور تحفہ ہے تقویٰ کہیں جسے
تُم جو دیارِ یثرب و بطحا سے آئے ہو
اے زائرو بتاؤ وہ تحفہ بھی لائے ہو
وہ حج کہ جس سے قبل کی حالت بدل سکے
کردار جس سے دین کے سانچے میں ڈھل سکے
چلتی رہے قدم بہ قدم دل کی روشنی
انساں گزارتا رہے تقویٰ کی زندگی
تُم خُوش نصیب ہو کہ ہُوئے حج سے شاد کام
محروم اس شرف سے ابھی ہیں بہت عوام
جو نُور لے کے آئے ہو سب کو عطا کرو
اپنے معاشرے کو اِسی نُور سے بھرو
اب تُم پہ قیدِ شرع ہے اَب تُم اسیر ہو
اب تُم خُدا کے اور نبیؐ کے سفیر ہو
یُوں ہو تمہاری ذات سے نیکی کا اہتمام
اپنے معاشرے میں بدی کا رہے نہ نام
اپنا معاشرہ جو گیا نیکیوں سے سج
ملتا رہے گا تُم کو برابر ثوابِ حج
حُسنِ عمل کے پھُول کھلانے کا وقت ہے
تاریکیوں میں شمع جلانے کا وقت ہے
شاعر کا نام :- عاصی کرنالی
کتاب کا نام :- حرف شیریں