دور آنکھوں سے مگر دل کے قریں رہتے ہیں

دور آنکھوں سے مگر دل کے قریں رہتے ہیں

اچھے پردے میں مرے پردہ نشیں رہتے ہیں


تیری محفل میں ہیں اے یار کہیں رہتے ہیں

دل سے نزدیک ہیں گو پاس نہیں رہتے ہیں


دیر میں اور نہ وہ کعبہ میں مکیں رہتی ہیں

قبئہ دل میں میرے گوشہ نشیں رہتے ہیں


نغمئہ کن فیکون اور صدائے انحد

بن کے بلبل میں وہ آواز حزیں رہتے ہیں


دیکھ کر تم کو اکیلا نہیں میں ہی بیتاب

حضرت دل بھی تو قابو میں نہیں رہتے ہیں


بج رہا ہے یہی ہر تار نفس میں نغمہ

جن کو ہم ڈھونڈ رہے ہیں وہ یہیں رہتے ہیں


ان کا ملنا و نہ ملنا ہے برابر بیدم

اتنے ہی دور ہیں وہ جتنے قریں رہتے ہیں

شاعر کا نام :- بیدم شاہ وارثی

کتاب کا نام :- کلام بیدم

دیگر کلام

کی دساں کتھوں تیک اے رسائی حسین دی

مرشدِ برحق شہِ احمد رضا

خواجہ کلیر سے ناطہ ہو گیا

شان کیا تیری خدا نے ہے بڑھائی خواجہ

مثالی ہے جہاں میں زندگی فاروقِ اعظم کی

تجھ کو دیارِ غیر کی آب و ہوا پسند

تیری خیر ہو وے اے شہنشاہا اج خیر اساں لے جانی ایں

درونِ کعبہ ہوا ہے لوگو ظہور

امام غوث اولیاء کے مقتدا علی علی

زندگی بوبکرکی حکم خدا کے ساتھ ہے