اِس نہج پہ انسان نے سوچا ہی کہاں ہے ؟

اِس نہج پہ انسان نے سوچا ہی کہاں ہے ؟

شبّیرؑ زمانے میں رسالت کی زباں ہے


یہ ابر کا ٹکڑا جو بِکھرتا ہے فَضا میں

سادات کے جلتے ہُوئے خیموں کا دُھواں ہے


بہنے لگا ہر ظلم مثالِ خس و خاشاک

زینبؑ، تری تقریر بھی اِک سیلِ رواں ہے


شبّیرؑ کی آواز جو گونجی سرِ مقتل

زینب یہی سمجھی، علی اکبرؑ کی اذاں ہے


کیوں برق سی گرتی ہے سرِ لشکرِ اعداء

اصغرؑ کے لبوں پر تو تبسّم کا نشاں ہے


بازار کے ہر موڑ پہ زینبؑ نے صدا دی

سجّاد سے پُوچھو، مرا عبّاسؑ کہاں ہے ؟


شبّیرؑ کا غم بھول کے دنیا کی خبر لے

محسؔن کو ابھی اتنی فراغت ہی کہاں ہے ؟

شاعر کا نام :- محسن نقوی

کتاب کا نام :- موجِ ادراک

دیگر کلام

افق پہ شام کا منظر لہو لہو کیوں ہے

مکا دیندا اے دکھ دیدار ماں دا

سینکڑوں سال ہُوئے جب نہ مِلا تھا پانی

عکسِ ابو ترابؑ ہیں اور جانِ مصطفیؐ

مرے دل کو لگی ہے تمھاری لگن یا خواجہ معین الدین چشتی

جس دی یاری سدا رہوے گی مثال

چھڈ دیس نگاراں دا

صفحہِ زیست پہ تحریرِ شہادت چمکی

رکھتا ہے جو غوثِ اعظم سے نیاز

قرآن کے پاروں پہ لہو جس کا گرا ہے