مرا عقیدہ ہے بعدِ محشر فلک پہ یہ اہتمام ہوگا

مرا عقیدہ ہے بعدِ محشر فلک پہ یہ اہتمام ہوگا

مرے خیالوں سے بھی زیادہ وسیع تر اک مقام ہوگا


عقیدتوں کے چمن کھلیں گے، مسرتوں کا نظام ہوگا

گلوں کو نسبت علی سے ہوگی کلی پہ زہرؑا کا نام ہوگا


ولائے حبِ علی کی برسات کا عجب لطفِ عام ہوگا

یہ انبیاء سب وزیر ہوں گے، تو صدر میرا امام ہوگا


مشیر معصومیت کے پالے کہ عدل سے جن کو کام ہوگا

محبتوں کی ہوا چلے گی ہوا میں حق کا پیام ہوگا


کہیں پہ زہرا کے پاسبانوں میں ایک فِضّہ کا نام ہوگا

کہیں درِ قصرِ بنتِ زہرا پہ سجدۂ صبح و شام ہوگا


مرا عقیدہ نہیں ہے جھوٹا یقیں ہے یہ اہتمام ہوگا

یہ عکس ہے ایک سلطنت کا، حسینیتؑ جس کا نام ہوگا


بہشتِ میراث جو نہیں ہے کہ گردِ راہِ شہ نجف ہے

مگر منافق کا کیا ٹھکانہ، نہ اس طرف ہے نہ اس طرف ہے


کہیں پہ باقر علوم بانٹیں گے علم کا لطف عام ہوگا

کہیں پہ جعفر کے گرد اہلِ خلوص کا اژدہام ہوگا


کہیں پہ موسیٰ رضا کی جانب سے مومنوں کو سلام ہوگا

کہیں جنابِ علی رضا سے کسی پیمبر کو کام ہوگا


کہیں تقی بزمِ اتقیاء کا سلام لیں گے کلام ہوگا

کہیں نقی مسند نقاوت پہ وقف الطاف عام ہوگا


کہیں حسن عسکری کی محفل میں ذکرِ خیر الانام ہوگا

کہیں کسی تخت پر مرے چودھویں علی کا قیام ہوگا


کہیں پہ نعرے علی علی کے کہیں درود و سلام ہوگا

ہر ایک میکش کے ہاتھ میں سلسبیل و کوثر کا جام ہوگا


مگر تبرہ کیے بغیر اس کو منہ لگانا حرام ہوگا

ہر اک عمارت خدا کی قدرت کا ایک نقشِ دوام ہوگا


کہیں محمد کی مسکراہٹ، کہیں علی کا کلام ہوگا

کہین حسن کی حسین صورت پہ زائروں کا سلام ہوگا


کہیں پہ مظلومِ کربلا کے جلوس کا اہتمام ہوگا

کہیں پہ سجاد کی سواری کا ذہن میں احترام ہوگا


گلی گلی میں اسی کا پرچم اسی کا سجدہ جبیں جبیں ہے

قدم قدم پر سبیل اس کی نظر نظر میں وہی مکیں ہے


ہوا ہوا میں اسی کے نوحے وہی تصور خلا نشیں ہے

اسی کا ماتم ہے آگ پر بھی اسی کا غم خلد کا امیں ہے


فلک فلک پر لہو اسی کا اسی کی مجلس زمیں زمیں ہے

حسینیت کو مٹانے والو حسینیت اب کہاں نہیں ہے؟


جہاں بھی ظالم حکومتیں تھیں وہاں وہ مظلوم چھا گیا ہے

وہ تیرگی کی ردا پہ اپنے لہو سے موتی سجا گیا ہے


کٹے ہوئے سر سے نوکِ نیزہ پہ بھی وہ قرآں سنا گیا ہے

بس ایک پل میں زمیں کو چھو کر کوئی معلیٰ بنا گیا ہے


جہاں جہاں کل یزیدیت تھی حسینیت اب وہیں وہیں ہے

حسینیت کو مٹانے والو حسینیت اب کہاں نہیں ہے

شاعر کا نام :- محسن نقوی

کتاب کا نام :- حق ایلیا

دیگر کلام

بنا جو عزم کی پہچان حق کے دیں کیلئے

حق ادا و حق نُما بغداد کی سرکار ہے

کھلا میرے دِل کی کلی غوثِ اعظم

شبیرِ نا مدار پہ لاکھوں سلام ہوں

میرے داتا کے عرس پر آنے والو سنو آ رہی ہے صدائے بلالی

میں ہوں سائل میں ہوں منگتا

جی لوں اگر نصیب میں حبِّ رسولؐ ہے

میرے آقا لاثانی کرو اک نظر در تے آیاں ہاں سن کے فسانہ ترا

حجابِ خُلق۔۔۔۔۲

دم دما دم دَست گیر