رسمِ شبّیر جگانے کے لیے

رسمِ شبّیر جگانے کے لیے

ہم نے غم سارے زمانے کے "لیے "


منزلیں بن گئیں خود جادہء شوق

ابنِ زہرا تجھے پانے کے لیے


کربلا تیری صدا کافی ہے

ساری دُنیا کو جگانے کے لیے


کج اداؤں سے نبٹنا سیکھو

حق پرستی کو بچانے کے لیے


پھر محرّم کا مہینہ آیا

حشر سینے میں اُٹھانے کے لیے


اشک کے رُوپ میں ہےذکرِ حُسین

آنکھ کا نُور بڑھانے کے لیے


تیرا کردار و عمل ، آفاقی

تیرا پیغام ، زمانے کے لیے


اک قیامت سے گزرنا ہوگا

درِ شبّیر تک آنے کے لیے


تشنگی اپنی گوارا کرلی

پیاس خنجر کی بجھانے کے لیے


جان ، حق کے لیے دینی ہوگی

سلسلہ اُن سے ملانے کے لیے


کربلا تک کا سفر ہے درپیش

بس نصیؔر اُٹھتے ہیں، جانے کے لیے

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- فیضِ نسبت

دیگر کلام

ہم اپنا حالِ غم دل سنانے آئے ہیں

یعقوب کے لیے تو خدا کارساز تھا

جہاں میں نورِ حمیت کو عام کس نے کیا

خواجہ کلیر سے ناطہ ہو گیا

وجہء تسکین جاں جنابِ علی

درونِ کعبہ ہوا ہے لوگو ظہور

پی جو لیتے عباس پانی کو

خدا کی خدائی کا وارث علی ہے

آتی ہے ہر اذاں سے صدا تیرے خُون کی

اَسیروں کے مشکل کشا غوثِ اعظم