حسینؑ
تجھ پر میرا سلام ہو اے دشتِ بے گیاہ
میری محبتوں کی عقیدت وصول کر
آیا ہوں رفعتوں کی تمنا لیے ہوئے
میرا خلوص میری دعائیں قبول کر
کربلاؔ
اے اجنبی ٹھہر مجھے اتنی دعا نہ دے
پہلے بھی میری خاک ہے نبیوں سے شرمسار
میری حدوں سے جلد گزر جا بہ احتیاط
میں کربلا ہوں میری تباہی سے ہوشیار
حسینؑ
تیرے اجاڑ پن کا میرے پاس ہے علاج
تجھ کو خبر نہیں کہ میں عیسیٰ کا ناز ہوں
میں نے تو بچپنے میں فرشتوں کو پر دیے
اپنا مرض بتا میں بڑا کارساز ہوں
کربؔلا
میری رگوں میں ہانپتی رہتی ہے شب کو موت
دن کو میری فضا میں برستی ہیں بجلیاں
شام و سحر بلاؤں کے مسکن ہیں ہر طرف
ہر سو بکھر رہی ہیں ہواؤں کی ہچکیاں
حسینؑ
وہ لوگ انبیاء تھے مگر میں امام ہوں
ممکن نہیں کہ دید کے بدلے شنید لوں
تجھ کو سنوارنے کی تمنا بھی ضد بھی ہے
اب طے یہ ہو چکا ہے تجھے میں خرید لوں
کربلؔا
مجھ کو سنوارنے کی تمنا ہے گر تو سن
اتنا لہو تو ہو کہ میں جس سے سنور سکوں
روزِ ازل سے ہے میری قسمت بجھی ہوئی
کیا کچھ ہے تیرے پاس میں جس سے نکھر سکوں
حسینؑ
میں وہ ہوں جس کو صرف تباہی سے پیار ہے
میرے ہی دم سے عرضِ تولا بنے گی تو
میں اس طرح پڑھوں گا یہاں آخری نماز
رتبے میں مثلِ عرشِ معلیٰ بنے گی تو
کربؔلا
ممکن نہیں کہیں پہ بھی یہ کیمیا گری
جو فرشِ بے رِدا کو کوئی تاج بخش دے
ایسا کوئی بشر نہیں دیکھا جو اس طرح
ذروں کو چھو کے عرش کی معراج بخش دے
حسینؑ
اے نینوا اداس نہ ہو حوصلہ نہ ہار
لایا ہوں تیرے واسطے پیغامِ زندگی
میں خود اجڑ کے تجھ کو بساؤں گا اس طرح
تیری سحر بنے گی میری شامِ زندگی
کربلاؔ
میرا یہ مشورہ ہے مسافر پلٹ ہی جا
شاید تجھے خبر نہیں میرے جنون کی
گرمی سے جاں بلب ہیں تیرے قافلے کے لوگ
لیکن میری رگوں میں ضرورت ہے خون کی
کربلاؔ
ڈھونڈے گا آسماں تیرے ذروں کی نکہتیں
تجھ کو عطا کروں گا وہ پوشاک دیکھنا
میرے لہو سے تجھ کو ملے گا وہ مرتبہ
خاکِ شفا بنے گی میری خاک دیکھنا
کربلاؔ
دعویٰ نہ کر کہ مجھ کو بسانا محال ہے
ایسا کوئی جہان میں پیدا نہیں ہوا
ہر فرد کو تلاشِ مسرت ہے دہر میں
کوئی تباہیوں کا تو شیدا نہیں ہوا
حسینؑ
اے خاکِ بے ثمر میرا اعجاز دیکھنا
اک بار میرے ساتھ ذرا مسکرا کے دیکھ
ضامن ہوں تجھ کو خلد سے بڑھ کر بساؤں گا
اے خطہء اداس مجھے آزما کے دیکھ
کربلاؔ
آئے تھے لوگ مجھ کو بسانے کے شوق میں
اک پل میں سب کے صبر کے ساغر چھلک گئے
تو تازہ دم سہی مگر اتنا خیال کر
میری اداسیوں سے پیمبر بھی تھک گئے