!اے روحِ تخلیق! اے شاہِؐ لولاک
ہو جائے پُر نور کشکولِ ادراک
انور تیرے ، آثار تیرے
از دامنِ خاک تا اوجِ افلاک
تیرے سوالی ، تیرے طلبگار
کیا قلبِ محزوں، کیا چشمِ نمناک
عالم ہے تجھ سے گلشن بد اماں،
عالم میں تھا کیا جُزخاروخاشاک
تیری نظر سے ہر دم رہے شاد
آباد، آزاد، یہ خطّہء پاک
شاہا! بہا کر مجھ کو نہ لے جائے
یہ سیلِ الحاد، یہ موجِ بے باک
تو جس کو چاہے جیسے نوازے
دنیاودیں ہیں سب تیری املاک
شاعر کا نام :- حفیظ تائب
کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب