۔اے نویدِ مسیحا دُعائے خلیل

۔اے نویدِ مسیحا دُعائے خلیل

نفرتوں کے گھنے جنگلوں میں شہا


عہدِ حاضر کا انسان محصور ہے

مشعلِ علم و اخلاق سے دور ہے


کتنا محبور ہے

اے نوید مسیحا


دُعائے خلیل

روک دے نفرتوں کی جو یلغار کو


پختگی ایسی دیں میرے کردار کو

آپ کا لطف و رحمت تو مشہور ہے

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

کوئی گھڑی ہو کوئی ہو موسم درود تجھؐ پر سلام تجھ ؐپر

بھی کوئی توقع ہم نہیں رکھتے، زمانے سے

تری ذات مصدرِ ہر ضیا ترا نام مطلعِ نور ہے

نور حضرتؐ کاجو طیبہ کے نظاروں میں نہ تھا

محفلِ سیدِ کونین جہاں ہوتی ہے

دیارِ نور میں اک آستاں دکھائی دیا

نبیوں میں نبی آپ سا دیکھا نہیں کوئی

نعت سنتا رہوں نعت کہتا رہوں

مثلِ جمال روئے تو شمس کجا قمر کجا

زُلفِ سرکار سے جب چہرہ نکلتا ہوگا