بھی کوئی توقع ہم نہیں رکھتے، زمانے سے

بھی کوئی توقع ہم نہیں رکھتے، زمانے سے

ہمارا کام چلتا ہے نبی کے آستانے سے


ہمیں محفوظ ہی رکھتےہیں آقاغم اٹھانے سے

خوشی کے قافلے وہ بھیجتے ہیں آستانے سے


ضلالت کا اندھیرا رقص کرتا تھا زمانے سے

چھپا کر منہ گیا سرکار کے تشریف لانے سے


اے شیطانِ لعیں ، گستاخ ! تیرے ورغلانے سے

نہیں باز آئیں گے ہم محفلِ آقا سجانے سے


اسیرِ عشقِ شاہِ بحر و بر دل جب سے ہو بیٹھا

رہائی مل گئی اس کو غموں کے قید خانے سے


ہوا یہ فائدہ آنکھوں میں پھر جالا نہیں دیکھا

سرِ مژگاں گہر عشقِ نبی کا جگمگانے سے


سعودی حکمرانوں نے نہیں رہنے دیا ورنہ

شفیقؔ آتا نہیں واپس نبی کے آستانے سے

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

یکتا ہے ترا طرزِ عمل ، احمدِؐ مرسل

نہ انعاماتِ عقبیٰ سے نہ دنیائے دَنی سے ہے

لِکھ رہا ہوں نعتِ سَرور سبز گُنبد دیکھ کر

روزِ ازل توں کہیا لبیک جنہاں مکے ڈھکیاں خلقتاں ساریاں نیں

ہمراہ میں اک نور کے دھارے کے چلا ہوں

میں میلی من میلا میرا

شاہ خیر الا نام آتے ہیں

اے دِل تو دُرُودوں کی اَوّل تو سجا ڈالی

جس دم ان کی نعت پڑھی ہے

سَر اگر آپؐ کے نقشِ کفِ پا تک پہنچے