درد کا درماں قرارِ جاں ہے نامِ مصطفےٰؐ

درد کا درماں قرارِ جاں ہے نامِ مصطفےٰؐ

زندہ ہیں اس کے سہارے سب غلامِ مصطفےٰؐ


ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے تھے نادار و امیر

اللہ اللہ شوکتِ دربار عامِ مصطفےٰؐ


گونج اٹھے دشت و جبل اللہ کی توحید سے

چار سُو پھیلا دیا حق نے پیامِ مصطفےٰؐ


ان کے منہ سے جو بھی نکلا وہ ہے فرمانِ خدا

میں اسے قرآن سمجھوں یا کلامِ مصطفےٰؐ


عرش پر وہ تھے خدا تھا دوسرا کوئی نہ تھا

بالاتر ہے فہمِ انساں سے مقامِ مصطفےٰؐ


کاش دیکھیں ہم ظہوریؔ وہ سہانی صبح نور

روشنی پھیلائے جب ہر سُو نظامِ مصطفےٰؐ

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- نوائے ظہوری

دیگر کلام

ہر نظر پاک ہر سانس پاکیزہ تر

اُس کی ہر بات بنی اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ

روضۂ سرکار سے نزدیک تر ہونے کو ہے

شہِ امم کے عشق کا حسین داغ چاہئے

آپؐ کی سیرت کا اَب تک ذائقہ بدلا نہیں

حضور لطف و عطا کا کمال رکھتے ہیں

گنہ آلود چہرے اشک سے ڈھلوائے جاتے ہیں

جھکیں اونچے اونچے شجر اُس کے آگے

حبیب داور شفیع محشر کا نام گونجا گلی گلی میں

اوہ وی ویلا آوے یار میں مدینے ہوواں