دِل درد سے بسمل کی طرح لوٹ رہا ہو

دِل درد سے بسمل کی طرح لوٹ رہا ہو

سِینے پہ تسلِّی کو تِرا ہاتھ دَھرا ہو


بے چین رکھے مجھ کو تِرا دردِ محبّت

مِٹ جائے وہ دِل پھر جسے ارمانِ دَوا ہو


دے اس کو دمِ نزع اگر حور بھی ساغر

منھ پھیر لے جو تشنہء دیدار تِرا ہو


گر وقت ِ اَجل سر تری چو کھٹ پہ دَھرا ہو

جتنی ہوں قضا ایک ہی سجدہ میں ادا ہو


مٹی نہ ہو برباد پسِ مرگ الٰہی !

جب خاک اُڑے میری مدینے کی ہوا ہو


اللہ کا محبوب بنے جو تمیں چاہے

اُس کا تو بیاں ہی نہیں کچھ تم جسے چاہو


تم ذاتِ خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو

اللہ کو معلوم ہے کیا جانیئے کیا ہو


آتا ہے فقیروں پہ اُنھیں پیَار کچھ ایسا

خود بھیک دیں اور خود کہیں منگتا کا بھلا ہو


ہر وقت کرم بندہ نوازی پہ تُلا ہے

کچھ کام نہیں اِس سے برا ہو کہ بھَلا ہو


قدرت نے اَزل میں یہ لکھا اُنکی جبیں پر

جو اِن کی رضا ہو‘ وہی خالق کی رضا ہو


شکر ایک کرم کا بھی اَدا ہو نہیں سکتا

دل اُن پہ فِدا جانِ حسؔن اُن پہ فِدا ہو

شاعر کا نام :- نامعلوم

دیگر کلام

رہزن کے پاس ہے نہ کسی رہنما کے پاس

آیا مہ رمضان مبارک

جدوں عشق حقیقی لگ جاوے فیر توڑ نبھاؤنا پیندا اے

روز عاشور کی یہ صبح عبادت کی گھڑی

محمدؐ ہیں سمندر تشنگی نعت

میرے مولا کا مُجھ پر کرم ہو گیا

ہے اُن کی زمیں اور، فلک اور، سماں اور

اے خدا شکر کہ اُن پر ہوئیں قرباں آنکھیں

مسلماں اُن کے گھر سے جو وفا کرتا نظر آیا

سانس میں ہے رواں میرا زندہ نبی ؐ