دِل درد سے بسمل کی طرح لوٹ رہا ہو
سِینے پہ تسلِّی کو تِرا ہاتھ دَھرا ہو
بے چین رکھے مجھ کو تِرا دردِ محبّت
مِٹ جائے وہ دِل پھر جسے ارمانِ دَوا ہو
دے اس کو دمِ نزع اگر حور بھی ساغر
منھ پھیر لے جو تشنہء دیدار تِرا ہو
گر وقت ِ اَجل سر تری چو کھٹ پہ دَھرا ہو
جتنی ہوں قضا ایک ہی سجدہ میں ادا ہو
مٹی نہ ہو برباد پسِ مرگ الٰہی !
جب خاک اُڑے میری مدینے کی ہوا ہو
اللہ کا محبوب بنے جو تمیں چاہے
اُس کا تو بیاں ہی نہیں کچھ تم جسے چاہو
تم ذاتِ خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو
اللہ کو معلوم ہے کیا جانیئے کیا ہو
آتا ہے فقیروں پہ اُنھیں پیَار کچھ ایسا
خود بھیک دیں اور خود کہیں منگتا کا بھلا ہو
ہر وقت کرم بندہ نوازی پہ تُلا ہے
کچھ کام نہیں اِس سے برا ہو کہ بھَلا ہو
قدرت نے اَزل میں یہ لکھا اُنکی جبیں پر
جو اِن کی رضا ہو‘ وہی خالق کی رضا ہو
شکر ایک کرم کا بھی اَدا ہو نہیں سکتا
دل اُن پہ فِدا جانِ حسؔن اُن پہ فِدا ہو
شاعر کا نام :- نامعلوم