فہمِ بشر سے اونچی ہے تقریرِ والضحٰی

فہمِ بشر سے اونچی ہے تقریرِ والضحٰی

خاکی زبان کیا کرے تفسیرِ والضحٰی


ظلمت کدوں کے دل میں یہ پیوست ہو گئی

شانِ عجب لئے ہوئے شمشیرِ والضحٰی


اے باسیانِ تِیرہ مقدر ! اٹھو چلو

وہ بٹ رہی ہے دیکھ لو تنویرِ والضحٰی


تحت السرٰی تا عرش تو معلوم حد ہوئی

از، تا ،کی حد سے بڑھ کے ہے جاگیرِ والضحٰی


حبِّ کمال اور خدا کی نگاہِ خاص

اس کے سوا ہے کیا بھلا اکسیرِ والضحٰی


اِس کے لئے ضروری نہیں شقِّ صدر ہو

برہانِ حُسنِ قلب ہے تذکیرِ والضحٰی


اس لفظ کے حجاب اٹھیں اُس کے واسطے

مشرب ہو جس کسی کا بھی تشہیرِ والضحٰی


صرف اس لئے لحد سے تبسم ہے بے خطر

ہو گی وہاں پہ رویتِ تصویرِ والضحٰی

دیگر کلام

وہ جن کی یاد سے دل کا مکان روشن ہے

صد شُکر ملی مجھ کو گدائی ترے در کی

رحمت لقب رسولؐ وہ بھیجا خدا نے ہے

ہمیں کوچہ تمہارا مِل گیا ہے

سرور کہوں کہ مالک و مَولیٰ کہوں تجھے

تمہارے مقدَّر پہ رشک آ رہا ہے

لَحد میں عشقِ رخِ شہ کاداغ لے کے چلے

یا رحمتہ اللعالمین

بُلائیں جب تمہیں شاہِ اُمَمؐ مدینے میں

ہواہے نعت کا روشن دیا مدینے سے