ہواہے نعت کا روشن دیا مدینے سے

ہواہے نعت کا روشن دیا مدینے سے

ملا ہے فیض مجھے بے بہا مدینے سے


کبھی جو ہجر میں سرکار کو پکارا ہے

کرم کی آئی ہے ٹھنڈی ہوا مدینے سے


جو نام سیدِ والاکا ورد کرتی ہوں

تو گھیر لیتی ہے آ کر ضیا مدینے سے


خدا کا شکر کہ حسرت رہی نہ دنیا کی

ہوئی ہے مجھ پہ کچھ ایسی عطا مدینے سے


انہی کے در کا بھکاری ہے سارا ہی عالم

کہ خالی لوٹا نہ کوئی گدا مدینے سے


جسے ملی ہے غلامی حبیبِ داور کی

اسے ملے گی محبت سدا مدینے سے


مرا نصیب ہے چمکا نبی کی الفت سے

ملی ہے ناز کو نوری ردا مدینے سے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

کیا ہے عرش سے اخترؔ کلام ہم نے بھی

ہم غلامِِ شہِ ھدیٰ ہو کر

بن کے خیر الوریٰ آگئے مصطفیٰ

اضطراب کی رُت ہے بے کلی کا موسم ہے

ہے یہ سچ کہ حسنِ عالم میں کوئی کمی نہیں ہے

تمہیں نے تو کیا ہم کو مسلماں یَارَسُوْلَ اللہ

نازشِ انس و جاں شاہِ والا حشم

آقائے دو جہاں مرے سرکار آپ ہیں

چل عشق مجھ کو شہر پیمبر میں

بہر سو آج برپا محفلِ ذکرِ رسالت ہے