حَسیں دیار سے نکلوں تو کوئی بات کروں

حَسیں دیار سے نکلوں تو کوئی بات کروں

حرا کے غار سے نکلوں تو کوئی بات کروں


کرم ہوا ہے ، نہیں کوئی بھی خزاں باقی

مَیں اس بہار سے نکلوں تو کوئی بات کروں


ہوں اِس جگہ پہ جہاں کھوٹے سکے چلتے ہیں

مَیں کاروبار سے نکلوں تو کوئی بات کروں


زہے نصیب کہ پایا ہے جس کو طیبہ میں

مَیں اس غبار سے نکلوں تو کوئی بات کروں


ملا جو کیف عجب اور سرور طیبہ میں

میں اس خمار سے نکلوں تو کوئی بات کروں


یہ ناز بھی ہے ثنا گو شہِ مدینہ کی

میں اس شمار سے نکلوں تو کوئی بات کروں

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

پر نور نہ ایماں کی ہو تصویر تو کہیے

کر رہا ہے مدحتِ سرکار جب قرآن سوچ

نبیؐ کے حسن سے ہستی کا ہر منظر چمکتا ہے

میرے افکار ہیں پروردۂ دربارِ رسول

روشن ہے دو عالم میں مہ رُوئے محمد

خالی کبھی ایوانِ محمدؐ نہیں رہتا

مقصُودِ کائِنات

علاجِ گردشِ لیل و نہار تُو نے کیا

اے صبا سرکار کی باتیں سنا

اِک ترے نام کا اِرقام رسول عربی