ہدایت و آگہی کا رستہ

ہدایت و آگہی کا رستہ

نظر میں ہے بس نبی کا رستہ


ثنائے سرکار لکھنا، پڑھنا

ہے یہ بھی اک بندگی کا رستہ


نبی کے روضے پہ یا خدا پھر

نکال دے حاضری کا رستہ


مہکتی خوشبو بتا رہی ہے

یہی ہے میرے نبی کا رستہ


ابھی سے ہموار کر لے ناداں

نبی سے وابستگی کا رستہ


جو شمعِ عشقِ نبی ہے دل میں

ہے قبر کی روشنی کا رستہ


شفیقؔ ! ہشیار ، چل سنبھل کر

کٹھن ہے نعتِ نبی کا رستہ

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

آئے نبی بہت مگر ان سا کوئی نبی نہیں

ہے کونین کے سر پہ رحمت نبی کی

بیک نگاہ و جلوہ بہم نظر آیا

گنبدِ سبز کی رنگت کے ثمر چن چن کر

ہو عطا اپنا غم، تاجدارِحرم

یہ دن رات آنکھیں یہ نَم کس لئے ہیں

بُلا لیجے گا عاصی کو بھی در پر یا رسول اللہ

تیرا کھاواں میں تیرے گیت

اِس شان سے ہو کاش تماشائے مدینہ

بروزِ حشر غلاموں کا راز فاش نہ ہو