اِس شان سے ہو کاش تماشائے مدینہ

اِس شان سے ہو کاش تماشائے مدینہ

جس سمت نظر جائے ‘ نظر آئے مدینہ


سودا ہو اگر سر میں تو سودائے مدینہ

ہو دل میں تمنّا تو تمنّائے مدینہ


ہر وقت تصوّر میں مدینے کی فضا ہو

اس طرح مرے دل میں سما جائے مدینہ


ہر خار مدینے کا گلِ تر سے حَسیں تر

اور غیرتِ فردوس ہے صحرائے مدینہ


ہے شافع محشر کا کرم اس کا مقدّر

اللہ رے خوش بختئ شیدائے مدینہ


تخلیق دو عالم کا سبب ذات ہے ان کی

شاہنشہء کونین ہیں آقائے مدینہ


خاکِ قدم پاک نبیﷺ خاکِ شفا ہے

ہر دَرد کا درماں ہیں مسیحائے مدینہ


وہ کوثر و تسنیم کا محتاج نہیں ہے

ہو جس کو عطا جُرعہ صہبائے مدینہ


یاد آتے ہیں جس وقت مدینے کے شب و روز

اقبؔال پُکار اٹھتا ہوں میں ہائے مدینہ

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

ہیں درپئے آزار ستم گر، مرے سرورؐ

عربی سلطان آیا

میں نے اس قرینے سے نعتِ شہ رقم کی ہے

ایسے بھی جہاں میں ہیں انساں

مجھ کو دیدارِ درِ پاکِ رسالت کا شرف

امام ِ جُملہ رُسل گلبنِ ریاضِ خلیل

سر سے پا تک ہر اَدا ہے لاجواب

قبلہ و کعبہء ایمان رسول عربی

زخم سینے کے رُلاتے رہے ہر دم مجھ کو

اب کرم یامصطَفیٰ فرمائیے