عشق شہ دیں مر کے بھی مرنے نہیں دیتا

عشق شہ دیں مر کے بھی مرنے نہیں دیتا

آقا کا کرم مجھ کو بکھرنے نہیں دیتا


میں شوق زیارت میں سدا گرم سفر ہوں

یہ شوق کہیں مجھ کو ٹھہرنے نہیں دیتا


بے مانگے ہی ہر ایک کی بھر دیتا ہے جھولی

وہ کوشش اظہار بھی کرنے نہیں دیتا


وه اوج مقدر جو مجھے اس نے دیا ہے

اس اوج مقدر سے اترنے نہیں دیتا


غیروں کا خیال آئے مرے دل میں تو کیسے

وہ ایسے خیالوں سے گزرنے نہیں دیتا


ہر لحظہ نیا لطف دیا زخم جگر نے

اس زخم کو میں تو کبھی بھرنے نہیں دیتا


ہے دامن رحمت مرے ہاتھوں میں نیازی

دوزخ سے کرم آپ کا ڈرنے نہیں دیتا

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

دور آنکھوں سے در نہ جائے کہیں

من موہ لیا عالم مسارے دا محبُوب خُدا دیاں گلّاں نیں

کیا پوچھتے ہو عزّت و عظمت رسُولؐ کی

تنویرِ شش جہات ہے روپوشِ نقش پا

پیکرِ عدل و کرم میرے حضورؐ

جو اسمِ گرامی شرفِ لو ح و قلم ہے

حکم ہے عالَم کو دیوانے کا دیوانہ رہے

زہے نصیب اُنہیںؐ ربط حالِ زار سے ہے

اَب کہاں حشر میں اندیشہء رُسوائی ہے

بھل کے بدکاریاں تے سِیہ کاریا ں