جائیں گے جب مدینے کو یاروں کے قافلے

جائیں گے جب مدینے کو یاروں کے قافلے

ملتے چلیں گے ساتھ بہاروں کے قافلے


ہے چاند آمنہ کا مدینے میں جلوہ گر

آتے ہیں روشنی کو ستاروں کے قافلے


بہر سلام عرش سے عرشی بصد نیاز

در پر جھکے ہوئے ہیں ہزاروں کے قافلے


ہے فرش راہ دیدہ و دل ساری کائنات

گزرے جدھر سے جان نثاروں کے قافلے


خوشبوئے زلف یار سے گلشن مہک پڑے

گزرے جدھر سے جاں نثاروں کے قافلے


دل کی نظر سے دیکھ نیازی تو چار سو

ہر سمت گھومتے ہیں نظاروں کے قافلے

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

جذبۂ حسرتِ دیدار جو تڑپاتا ہے

خوبصورت زندگی ، بہتر زمانے کے لئے

ہم ہیں تمھارے ‘ تم ہو ہمارے

مسرور زیرِ لب ہے حرف سوال میرا

شاہِ گردُوں مقام عرش خرام

حَسیں دیار سے نکلوں تو کوئی بات کروں

چشمِ عالم نے وہ شانِ شہِ بطحا دیکھی

کون ایسا ہے جسے خیرِ وَریٰ نے نہ دیا

میں لکھ لوں نعت جب تو نُور کی برسات ہوتی ہے

در نبی یہ مقدر جگائے جاتے ہیں