جبینِ خامہ حضورِ اکرم کے سنگِ در پر جھکائے راکھوں

جبینِ خامہ حضورِ اکرم کے سنگِ در پر جھکائے راکھوں

حسین لفظوں کی کہکشائیں برائے سرور سجائے راکھوں


قلم سے نوشابۂ عقیدت ہمیشہ جاری رہے الٰہی

ازل کی تشنہ سماعتوں کو جمیل ساغر پلائے راکھوں


اگرچہ شایانِ شانِ پاپوشِ پائے اقدس نہیں ہیں لیکن

یہ آرزو ہے کہ ان کی راہوں میں اپنی پلکیں بچھائے راکھوں


ندامتوں سے نظر اٹھانا محال ہے ان کے آستاں پر

سنہری جالی کی خوشنمائی پہ کیسے نظریں جمائے راکھوں


مرا تصور رہے ہمیشہ قدومِ آقا میں دست بستہ

میں اپنی سوچوں کو باندیاں کر کے سنگِ در پر بٹھائے راکھوں


تمہاری لطف و کرم کی عادت نے میرے کانوں میں کہہ دیا ہے

چراغِ امید اپنی آنکھوں کے طاقچوں میں جلائے راکھوں


نعوت رکھنا مرے کفن میں مرے وصایا میں درج کر لو

لحد میں آئیں جو شاہِ عالم تو ان کو پڑھ کر سنائے راکھوں


تصوراتی حرا ہو اشفاقؔ میرے سینے کے بام و در میں

حریمِ دل کے گداز گوشوں میں ان کی صورت بسائے راکھوں

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

دیارِ نور میں جناں کا باغ رکھ دیا گیا

تاجِ توصیفِ نبی بر سرِ ایمان چڑھا !

یہی زمیں ہے یہی آسماں مدینے میں

لبوں پر درود و سلام آ رہے ہیں

ہر پیمبر کا عہدہ بڑا ہے لیکن آقاﷺ کا منصب جُدا ہے

عام ہیں آج بھی ان کے جلوے ، ہر کوئی دیکھ سکتا نہیں ہیں

سراپا محبت سراپا عنایت کرم ہی کرم مصطفیٰ بن کے آئے

ہے دعا ہر دم رہے وہ کوئے انور سامنے

میں دن رات نعتِ نبی لکھ رہا ہوں

محبوبِ ربِّ اکرم! لاکھوں سلام تم پر