جس کو درِ رسول کی قُربت نہیں ملی

جس کو درِ رسول کی قُربت نہیں ملی

اُس کو کبھی سکون کی دولت نہیں ملی


محشر میں سُوئے یوسف کیا دیکھتے بھلا

آنکھوں کو تیری دِید سے فرصت نہیں ملی


دیکھا ہے میں نے جا کے جہنّم کو غور سے

سب کچھ مِلا ہے آپ کی اُمّت نہیں ملی


کتنا وہ بدنصیب ہے دُنیا میں دوستو

جِس کو مِرے حضور کی نِسبت نہیں ملی


حاکؔم ہمارے گھر میں بھی آتے تو وہ ضرور

لیکن ہمیں ایّوب کی قسمت نہیں ملی

شاعر کا نام :- احمد علی حاکم

کتاب کا نام :- کلامِ حاکم

دیگر کلام

یوں تو سارے نبی محترم ہیں

ہم گو ہیں برے قسمت ہے بھلی

کیا خبر کیا سزا مجھ کو ملتی

اس کی معراجِ بلندی پہ عبادت ہوجائے

رب دا پیارا آیا جگ دا سہارا آیا دلاں نوں قرار ملیا

وہ سورج ہے سب میں ضیاء بانٹتا ہے

تارِ دل اپنی مدینے سے لگا بیٹھے ہیں

عالم افروزہیں کس درجہ حرا کے جلوے

نہ کہیں سے دُور ہیں مَنزلیں نہ کوئی قریب کی بات ہے

وچ دل دے بھانبڑ بل دے نیں جد یاد مدینہ آجاوے