جدا ہُوا مِری آنکھوں سے اُن کا نُور کہاں

جدا ہُوا مِری آنکھوں سے اُن کا نُور کہاں

دل و نگاہ سے جلوے نبیؐ کے دُور کہاں


نگارِ عرش کہاں ہے کلیمِؑ طُور کہاں

پہنچ گئے شبِ اسریٰ مِرے حضورؐ کہاں


جو چشم ساقیٔ کوثر سے فیض یاب نہیں

نصیب ہے اُسے جامِ مئے طَہُور کہاں


ہزار رشک ہیں جنت کو ارضِ طیبہ پر

یہ انبساط، یہ تسکین، یہ سُرور کہاں


جسے نصیب ہوئی دیدِ روضۂ اطہر

رسولِؐ پاک کی رحمت سے ہے وہ دُور کہاں


نگاہ وادیٔ ایمن میں کیوں بھٹکتی پھرے

کہاں مدینے کا عالَم، جہانِ طُور کہاں


یہ کہہ کے حشر میں ہر اُمّتی پکارے گا

مِرے حُضورؐ کہاں ہیں، مِرے حُضورؐ کہاں


یہاں ہے جسم، مگر رُوح ہے وہاں میری

نظر سے دُور مدینہ ہے، دل سے دُور کہاں


دُعا یہ کی ہے کہ اُس دَر پہ پھر رسائی ہو

لرز رہا ہُوں یہ عاصی کہاں، حُضورؐ کہاں


وہ ذات، زینتِ افلاک و صبح گاہِ ازل

کہاں کا نُور تھا، لیکن ہُوا ظُہور کہاں


نصیرؔ! اُن کے تصور سے دل کو روشن کر

تری نگاہ کو تابِ شعاعِ نُور کہاں

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

دیگر کلام

تیرے غم میں جو نہ گزرے بیکار زندگی ہے

معنیِ حرفِ کُن

بڑھ کر ہے خاکِ طیبہ

اپنی رحمت کے سمندر میں اُتر جانے دے

شوقِ طیبہ میں بے قرار ہے دل

ذوقِ نعتِ شہِ ابرار نے سونے نہ دیا

ترے منگتے کی یہ پیہم صدا ہے یا رسولؐ اللہ

یادِ نبیؐ کی کرتی آئینہ داری راتیں

ذِکر ہونٹوں پر ترا ہونے لگے

وہ حسن ہے اے سید اَبرار تمہارا