ذِکر ہونٹوں پر ترا ہونے لگے

ذِکر ہونٹوں پر ترا ہونے لگے

جان جب مجھ سے جُدا ہونے لگے


تُو شفاعت کے لیے موجود ہو

جب خدا مجھ پر خفا ہونے لگے


تیرا سایہ ہو مرے سر پر محیط

شور محشر جب بپا ہونے لگے


میں ابھی سے تیرا دامن تھام لوں

کیا خبر اس وقت کیا ہونے لگے


کاش تُو ہو میری جاں کے آس پاس

میرا سایہ جب بڑا ہونے لگے


ہو ترا ہی آسرا اِس کو نصیب

جب یہ دِل بے آسرا ہونے لگے


اس کو آجائے وہاں تیرا خیال

دِل سے جب کوئی خطا ہونے لگے


مجھ پہ ہو تیرا کرم جب ہر طرف

مصطفےٰ یا مصطفےٰ ہونے لگے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

کوئی ہنر ہے نہ مجھ میں کمال رکھا ہے

سایہ بھی مرا چل نہیں سکتا مرے آگے

آہٹ ہوئی کہ آمدِ سرکار ہو گئی

جبین شب پر رقم کیے حرف کہکشاں کے

حبیبؐ تیرےؐ لیے حسنِ لامکانی ہے

تیری اُمت پہ سایہ سلامت رہے

ہے جس کی ساری گفتگو وَحیِ خدا یہ ہی تو ہیں

الفاظ نہیں ملتے سرکار کو کیا کہیے

اے بِیابانِ عَرب تیری بہاروں کو سلام

جب لگا آنکھ میں موسم ذرا صحرائی ہے