کونین میں ہے سیـدِ ابرار کی رونق

کونین میں ہے سیـدِ ابرار کی رونق

سرکار کے ہونے سے ہے سنسار کی رونق


جگمگ ہیں فلک پر جو قمر اور ستارے

بخشی ہے انہیں آپ نے انوار کی رونق


کس درجہ حسیں کوئے نبی کے ہیں نظارے

ہے دل کا سکوں گنبد و مینار کی رونق


وہ جالی سنہری وہ حسیں منبر و محراب

کرنوں سے مزین در و دیوار کی رونق


ہر وقت دُرودوں کی سلاموں کی صدائیں

منگتوں سے بھرے کوچۂ سرکار کی رونق


دیکھی نہیں دنیا کے کسی باغ میں اے ناز

دیکھی ہے مدینے کے جو گلزار کی رونق

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

شاہوں کے سامنے نہ سکندر کے سامنے

تم پر میں لاکھ جان سے قربان یا رسولﷺ

یاد طیبہ کا نگر آنے لگا

چڑھیا چن صفر دا جسدم

دُھماں دو جگ دے وچ دُھمیاں ن

جس دن دیاں اکھیاں لگیاں نے اُس دن دیاں اکھیاں کھلیاں نے

فیضان کی بٹتی ہے خیرات مدینے میں

وہ نکلا جس گھڑی غارِ حرا سے

نعمتیں بانٹتا جِس سَمْت وہ ذِیشان گیا

در پر نبی کے چاندنی آتی ہے رات بھر