وہ نکلا جس گھڑی غارِ حرا سے

وہ نکلا جس گھڑی غارِ حرا سے

چمک اُٹھا جہاں اُسکی ضیا سے


نہ پوچھو طلعتِ روئے منور

جہاں میں روشنی ہے نقشِ پا سے


ملے گی ہر اذیت سے رہائی

کوئی سیکھے ازل کے رہنما سے


تری گفتار پُر تاثیر ہوگی

اگر آغاز ہو صلے علیٰ سے


محبت ہے اگر محبوبِ رب سے

تو پھر بچ جائو گے رب کی سزا سے


ہے عزت رب کے ہاں ذکرِ نبیؐ سے

ملے کیا خاک لوگوں کی ثنا سے


سبھی شاہوں کو میرا مشورہ ہے

نہ ٹکرانا کبھی اُنکے گدا سے


ترے عشاق نے تو جب بھی مانگا

تری چاہت ہی مانگی ہے خدا سے


کوئی پوچھے کہاں سے نعت سیکھوں

تو کہنا سیّدی احمد رضاؒ سے


شکیلؔ اِک ذرہِ بے آبرو تھا

بھرا کاسہ ہے اب اُنکی عطا سے

شاعر کا نام :- محمد شکیل نقشبندی

کتاب کا نام :- نُور لمحات

دیگر کلام

جبینِ خامہ حضورِ اکرم کے سنگِ در پر جھکائے راکھوں

جب نام سے آقا کے میں نعرہ لگا اُٹّھا

حشر کے دن نفسی نفسی ہے سب کا دامن خالی ہے

کن کا حاکم کردیا اللہ نے سرکار کو

مہک اٹھے سحرسحر ہیں نکہتوں کےسلسلے

جب کن فکاں کا حسن دمِ مصطفیٰؐ سے ہے

نطر میں پھِر رہا ہے آستاں محبُوبِؐ برتر کا

مصطفیٰ آپ کی گلی اچھی

دل ہوا گھائل ز فرقت

دل میں اگر بسی ہے محبت رسول کی