لبہائے مصطفےٰ سے وہ مِل کر چمک اُٹھا

لبہائے مصطفےٰ سے وہ مِل کر چمک اُٹھا

بوسہ لیا حضور نے پتھر چمک اُٹھا


ایسا نہیں ہوا ہے کوئی کائنات میں

سرکارِ دو جہاںسے جو ہٹ کر چمک اٹھا


شمس و قمر بھی آگئے خیرات مانگنے

نورِ نبی سے آمنہ کا گھرچمک اٹھا


گزرا نبی کے کوچۂِ عنبر فشاں سے جو

مہکا سراپا، خاک کا پیکر چمک اٹھا


دربارِ مصطفے کا یہ اعجاز دیکھئے

اک ذرۂِ حقیر بھی در پر چمک اٹھا


شمس الضحیٰ کی ذات سے نسبت جسے ہوئی

سمجھو کہ اس کا نجمِ مقدر چمک اٹھا


سرکار کے گھرانے کا کھا کر نمک شفیقؔ

بے رنگ و نور تجھ سا سخنور چمک اٹھا

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

ہم بھی ان کے دیار جائیں گے

ہمارا دن ہے منور تو رات روشن ہے

دو جہاں سرکار کی تملیک میں ہی ٹھیک ہیں

سر رشتۂ کُن فکاں محمدؐ

’’کوچۂ خوشبو میں ہوں اور قریۂ نکہت میں ہوں‘‘

سنگ باریِ ظلم و ستم سے زخم جب جب بھی کھائے ہیں آقاؐ

کملی والے دے در اُتے گردن جھکا

نگارشات میں ہم نے جو پائی عزّتِ نعت

شانِ محبوبِ رحمان کیا خوب ہے

ایک خواہش مرے دل میں برسوں سے ہے