لبہائے مصطفےٰ سے وہ مِل کر چمک اُٹھا
بوسہ لیا حضور نے پتھر چمک اُٹھا
ایسا نہیں ہوا ہے کوئی کائنات میں
سرکارِ دو جہاںسے جو ہٹ کر چمک اٹھا
شمس و قمر بھی آگئے خیرات مانگنے
نورِ نبی سے آمنہ کا گھرچمک اٹھا
گزرا نبی کے کوچۂِ عنبر فشاں سے جو
مہکا سراپا، خاک کا پیکر چمک اٹھا
دربارِ مصطفے کا یہ اعجاز دیکھئے
اک ذرۂِ حقیر بھی در پر چمک اٹھا
شمس الضحیٰ کی ذات سے نسبت جسے ہوئی
سمجھو کہ اس کا نجمِ مقدر چمک اٹھا
سرکار کے گھرانے کا کھا کر نمک شفیقؔ
بے رنگ و نور تجھ سا سخنور چمک اٹھا
شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری
کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا