لہجۂِ گل سے عنادل نے ترنم سیکھا

لہجۂِ گل سے عنادل نے ترنم سیکھا

اور غنچوں نے تبسم سے تبسم سیکھا


نطقِ یوحٰی کے فدائی ہوئے عالم کے بلیغ

میرے افصح سے فصیحوں نے تکلم سیکھا


اللہ اللہ صحابہ تِرے سبقت والے

جن سے عالم نے تبرُّع میں تقدم سیکھا


کثرتِ جود سے دریا نے روانی پائی

جوشِ رحمت سے ہے موجوں نے تلاطم سیکھا


یہ بھی من جملہ خصائص ہے کہ امّت میں تری

فاقدِ آبِ طہارت نے تیمم سیکھا


علمِ کونین تِرا قطرۂِ دریائے علوم

عقلِ عالم نے ترے در سے تفہم سیکھا


بکھری اشیا ہیں مرتب ترے گیسو کے طفیل

بے تنظم نے اسی در سے تنظم سیکھا


نوعِ انسان نے جانا یہیں انساں ہونا

وحشیوں نے تِری رحمت سے ترحم سیکھا


اے معظمؔ ! ہے اسی در پہ یقیں کی دولت

اور ہر جا سے تو عالم نے توہم سیکھا

شاعر کا نام :- معظم سدا معظم مدنی

کتاب کا نام :- سجودِ قلم

دیگر کلام

رس گئے نے میتھوں ہاسے جاواں میں کیڑے پاسے

یاد کردے رہو زُلف محبوب دی

قدم قدم پہ خدا کی مدد پہنچتی ہے

جدوں بھانبڑ جُدائیاں دے میرے دل وچہ بلے رہندے

شمائلِ نور بار میں جب لبِ محمد کا باب آیا

حبیبِ خدا کا نظارا کروں میں

وہ نکلا جس گھڑی غارِ حرا سے

یاد طیبہ کا نگر آنے لگا

وہ مقدر کا سکندر ہو گیا

رل خوشیاں یار مناؤ اللہ نے کرم کمایا