مدینے سے جدائی کی گھڑی ہے
لگی پلکوں سے ساون کی جھڑی ہے
ہمارے خواب عنبر زار کر دیں
ہمیں دیدار کی حسرت بڑی ہے
یہ پلٹے گی تو مہکائے گی گلشن
ہوا سوئے مدینہ چل پڑی ہے
پیامِ حاضری آ جائے کس پل
نگہ مدت سے رستے پر گڑی ہے
بدن اپنا اٹھا لائے ہیں لیکن
ہماری جاں مدینے میں اڑی ہے
کہاں میں اور کہاں شاہِ دو عالم
نظر کس اوج پر جا کر لڑی ہے
مدینہ ہے ابھی آنکھوں سے اوجھل
اجل اشفاق سرہانے کھڑی ہے
شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری
کتاب کا نام :- انگبین ِ ثنا