مدینے سے جدائی کی گھڑی ہے

مدینے سے جدائی کی گھڑی ہے

لگی پلکوں سے ساون کی جھڑی ہے


ہمارے خواب عنبر زار کر دیں

ہمیں دیدار کی حسرت بڑی ہے


یہ پلٹے گی تو مہکائے گی گلشن

ہوا سوئے مدینہ چل پڑی ہے


پیامِ حاضری آ جائے کس پل

نگہ مدت سے رستے پر گڑی ہے


بدن اپنا اٹھا لائے ہیں لیکن

ہماری جاں مدینے میں اڑی ہے


کہاں میں اور کہاں شاہِ دو عالم

نظر کس اوج پر جا کر لڑی ہے


مدینہ ہے ابھی آنکھوں سے اوجھل

اجل اشفاق سرہانے کھڑی ہے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- انگبین ِ ثنا

دیگر کلام

کہیں بند میکدہ ہے کہیں جام چل رہا ہے

کیا لکھوں میں بھلا رَسُوْلُ اللہ

منگتے ہیں کرم ان کا سدا مانگ رہے ہیں

تم پر لاکھوں سلام تم پر لاکھوں سلام

گدا نواز در لطف کا گدا رکھنا

میرے آقا جے در نہ دکھایا تُساں

حبیب خدا ہیں حسیں ہیں محمّد

عطّاؔر نے دربار میں دامن ہے پَسارا

میں دیکھوں نعت کا حُسن و جمال

خوں کے پیاسوں کی جاں بخشنے آگئے