مہک میں رب نے بسائے رسول کے گیسو

مہک میں رب نے بسائے ،رسول کے گیسو

کہ مشک و گل کو ہیں بھائے، رسول کے گیسو


عیاں ہے جمعِ نقیضینِ روز و شب کا سماں

”رُخِ رسول پہ آئے، رسول کے گیسو“


سَحابِ رحمتِ رَبِّ قدیر کی صورت

تمام خلق پہ چھائے، رسول کے گیسو


گھٹا کہوں کہ شبِ تار ، تم کو ، حیراں ہوں

ہیں گنگ سارے کِنائے، رسول کے گیسو !


اسے ڈَسا نہیں پھر مارِ رنج و غم نے کبھی

ہیں جس کے ہاتھ میں آئے، رسول کے گیسو


بندھا ہے تارِ رگِ جانِ عالَمیں ان سے

کنڈل جبھی ہیں بنائے، رسول کے گیسو


انہیں نہ مارِ سِیَہ کہہ ! کہ ہے ادب کے خلاف

اگرچہ شانوں پہ آئے، رسول کے گیسو


اسے ستائے نہ خورشید حشر کی گرمی

تمہارے جس پہ ہوں سائے، رسول کے گیسو !


دُھلے گی پل میں معظمؔ سیاہی عِصیاں کی

اگر برسنے پہ آئے ، رسول کے گیسو

شاعر کا نام :- معظم سدا معظم مدنی

کتاب کا نام :- سجودِ قلم

دیگر کلام

نہیں ہے تابِ نظّارہ شہِ ابرار کو دیکھیں

میرا گھر غیرتِ خورشیدِ دَرخشاں ہوگا

شان اُچا اے عرش معلی توں وی

دل سے تڑپ کے نکلیں صدائیں مرے نبی

جو محروم ہیں تیرے لطف و کرم سے پھریں گے سدا دربدر مارے مارے

کم نظر آتے ہیں دیوانۂ آقاؐ مخلص

شاہِ ابرارؐ سے نسبت نہ اکارت جائے

عطّاؔر نے دربار میں دامن ہے پَسارا

اوہ آجاون میرے ویہڑے ایہو منگدا دُعا بیٹھا

زِیست وقفِ غمِ و آلام تھی جن سے پہلے