مئے محبوب سے سرشار کردے

مئے محبوب سے سرشار کردے

اُویسِ قرَنی کو جیسا کیا ہے


گما دے اپنی اُلفت میں کچھ ایسا

نہ پاؤں میں میں میں جو بے بقا ہے


پلادے مَے کہ غفلت دُور کردے

مجھے دنیا نے غافل کردیا ہے


عطا فرما دے ساقی جامِ نوری

لبالب جو چہیتوں کو دیا ہے


ثنا لکھنی ہے محبوبِ خدا کی

خدا ہی جن کی عظمت جانتا ہے


میں تیرے فیض سے کچھ کہہ سکوں گا

میں کیا ہوں اور مرا یارا ہی کیا ہے


سنا اے بلبل باغِ مَدینہ

ترانہ اور دل یہ چاہتا ہے


سنا نوریؔ غزل اس کی ثنا میں

ثنا جس کی ثنائے کبریا ہے

شاعر کا نام :- مفتی مصطفٰی رضا خان

کتاب کا نام :- سامانِ بخشش

دیگر کلام

رحمت لقب رسولؐ وہ بھیجا خدا نے ہے

اے کریم! نادم ہوں شرم ہے نگاہو ں میں

جسے ان کے در کی گدائی ملی ہے

ان کا صدقہ قریب و دور ملا

مدح سرا قرآن ہے جس کا تم بھی اسی کی بات کرو

شب معراج پَل بھر میں مکاں سے لا مکاں پہنچے

مَیں کہاں فن کہاں کمال کہاں

روح نے اللہ سے عشقِ پیمبر لے دیا

لٹا کے بیٹھا ہی تھا چشمِ تر کا سرمایہ

کہتا ہوں جب بھی نعت مدینے کے شاہ کی