میں کسی سے کچھ نہیں مانگتا مرا آسرا کوئی اور ہے

میں کسی سے کچھ نہیں مانگتا مرا آسرا کوئی اور ہے

مرے آشنا ہیں بہت مگر درد آشنا کوئی اور ہے


ترا اہل زر سے ہے واسطہ مرا مصطفیٰ سے ہے رابطہ

ترا راستہ کوئی اور ہے مرا راستہ کوئی اور ہے


مرے جسم میں مری جاں نہیں مرے منہ میں میری زباں نہیں

نہیں بولنا مرا بولنا وہ تو بولتا کوئی اور ہے


یہ معاملہ ہے عجیب تر کہ جدا ہے دل ہے جدا نظر

اسے دیکھتا کوئی اور ہے اسے مانتا کوئی اور ہے


مری جاں فدا کسی اور پر مجھے جان دی کسی اور نے

ہوں اسیر غم کسی اور کا مجھے پوچھتا کوئی اور ہے


تو بھٹک رہا ہے ادھر اُدھر مرے پاؤں پڑتی ہے منزلیں

ترا رہنما کوئی اور ہے مرا رہنما کوئی اور ہے


وہ یہاں نہیں کہ وہاں نہیں ہو جو آنکھ تو وہ کہاں نہیں

نہیں کام دیدہ کور کا اسے دیکھتا کوئی اور ہے


وہ مری نظر کا فریب تھا تھا جو سامنے کوئی اور تھا

مرے دل میں ہے جو چھپا ہوا وہ تو دلربا کوئی اور ہے


ہے نیازی میرا یہی یقیں کوئی آپ سا بخدا نہیں

وہ حبیب رب کریم ہیں کہاں آپ سا کوئی اور ہے

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

ان کو دیکھا تو گیا بھول میں غم کی صورت

ہمارے سر پہ ہے سایہ فگن اُلفت محمّد کی

مدیحِ روحِ عالمیںؐ نہیں مری بساط میں

در نبی کی طرف چلا ہوں

نور اللہ دا نور نبی دا

بن جا توں وی یار مدینے والے دا

مظلوم کا بے کس کا پریشاں کا تحفظ

عجب رنگ کرم دیکھا ہواؤں میں گھٹاؤں میں

رسول میرے مِرے پیمبر درود تم پر سلام تم پر

کونین میں یُوں جلوہ نُما کوئی نہیں ہے