منشا مرا بیانِ حیاتِ رسول بس

منشا مرا بیانِ حیاتِ رسول بس

مقصد مرا رضائے خدا کا حصول بس


پروانہ کو ہے شمع تو بھنورے کو پھول بس

عاشق کو نعلِ سیدِ عالم کی دھول بس


اللہ نے حبیب کا خود ہی کیا دفاع

کوثر کی پڑھ کے دیکھیے شانِ نزول بس


نعتِ رسول پاک ہے اس کا ورق ورق

ظاہر میں ہے قرآن کتابِ اصول بس


چوما تھا ایک روز عمامہ رسول کا

جنت میں جائے گا وہی خارِ ببول بس


یوں تو چمن میں اور بھی غنچے کئی کھلے

نکہت فزا ہیں فاطمہ زہرا کے پھول بس


ہم جس دعا کے اول و آخر پڑھیں درود

حاصل اسی دعا کو ہو شرفِ قبول بس


دینِ محمدی میں نئی روح پھونک دی

مشہور ہے شہادتِ سبطِ رسول بس


ہیرے جواہرات زر و مال کچھ نہیں

احمد رضا کو بیعتِ آلِ رسول بس


مل جائے کاش نظمی کو حسّان کی زباں

پڑھتا رہے ہمیشہ ثنائے رسول بس

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

جھکیں اونچے اونچے شجر اُس کے آگے

مُبارک اہلِ ایماں کو کہ ختمُ المرسلیں ؐ آئے

ٹرپئے نے مسافر طیبہ دے ویکھن روضنے دیاں شاناں نوں

کرم مانگتا ہوں عطا مانگتا ہوں

ہوئی کافور ظلمت نورِ حق کا بول بالا ہے

یا نبی! دَر پہ بلائیں

اشرف الانبیاء ہے ہمارا نبیﷺ

ایسے کرم ہوئے ہیں رسالت مآب کے

بھرے ہیں گھاؤ مرے جب

خدا کی حمد نعتِ مصطفیٰ ہے