مریضِ غم کو ملے گی شفا مدینے سے

مریضِ غم کو ملے گی شفا مدینے سے

ہر ایک دکھ کی ملے گی دوا مدینے سے


جمالِ گنبد خضریٰ ہمیں نظر آئے

دلوں کا تار اگر ہو جُڑا مدینے سے


کہا ہے وقتِ مصیبت اغِثنی جب میں نے

کرم کی اٹھّی ہے اس دم گھٹا مدینے سے


درِ رسول پہ آ کر بنا لو بگڑا نصیب

وہ دیکھو آتی ہے پیہم صدا مدینے سے


ہر ایک غنچۂ امّید کھِل اٹھا اس دم

نبی کی جس گھڑی آئی عطا مدینے سے


وہیں پہ ہوتی ہے تشنہ دہن کی سیرابی

کرم کی اٹھتی ہے ہر دم گھٹا مدینے سے


دوانے جھوم اٹھے جس گھڑی حضوری کا

پیام لے کے جو آئی صبا مدینے سے


پلٹ کے آئے خدا پھر سے دورِ عثمانی

الٰہی دور ہو نجدی بلا مدینے سے


یہی ہے آرزو، حسرت یہی ہے احمدؔ کی

کبھی نہ لوٹ کے آئے شہا مدینے سے


نبی کے عشق میں خود کو فنا کرو احمد

ضرور تم کو ملے گی بقا مدینے سے

کتاب کا نام :- حَرفِ مِدحَت

دیگر کلام

دل و نظر میں بہار آئی سکوں

اپنی بخشش کیلئے رو کے الگ بات کروں

بخوفِ گردشِ دوراں اداس کیوں ہوگا

کرم جو آپ کا اے سیدِ اَبرار ہوجائے

اک میں ہی نہیں اُن پر قربان زمانہ ہے

فلسفی! تجھ کو عبث دُھن ہے اُسے پانے کی

ہواہے نعت کا روشن دیا مدینے سے

جو شخص آپ کے قدموں کی دھول ہوتا نہیں

ادب گاہِ دوعالم ہے یہاں دستک نہیں دیتے

نعت ہی نعت جو قرآن کے ادراک میں ہے