مرکز میرے فکر کا وہ مکّی محبُوب

مرکز میرے فکر کا وہ مکّی محبُوب

فطرت کی رعنائیاں جس سے ہیں منسوب


جو فرمائے عقل ہے بنیاد ِ اسلام

جو سمجھائے عشق کو ہر خوب و نا خوب


جس کا راس المال ہے مولا کا عرفان

وہ طالب اللہ کا اور اس کا ہےمطلوب


ساتھی اس کا عِلم ہے ، شوق اس کا رہوار

سرتا پا تنزیل ہے جینے کا اسلوب


جو ہر سب اسلاف کے اس میں ہیں یکجا

عیسیؑ کا وہ زہد ہو یا صبرِ ایّوب


اُس کی سیرت نقش ہے جن جن ذہنوں پر

وہ تہذیب ِ عصر سے ہوں کیسے مرعوب


گر سنّت سرکارؐ کی اُمّت اپنالے

کر سکتی ہے آج بھی باطل کو مغلوب


تنویر اُس کے دین کی ہر سُو چھائے گی

یہ ارشادِ خاص ہے قرآں میں مکتوب


تائبؔ میرے واسطے سب کچھ اُسکی ذات

کھولا جس کی مدح نے ہر رازِ محجوب

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

مظہر ذاتِ خدا فخرِ رسالت لکھنا

مُحمد دی مرضی ہے مرضی خدا دی خُدا نوں اے سب نالوں پیارا مُحمد

جس راہ توں سوہنیا لنگھ جاویں اوہدی خاک اٹھا کے چُم لیناں

پھر سے بلاؤ جلد مدینے میں یارسول

جنت کی نعمتوں سے میں منکر نہیں مگر

کیسے بتلاؤں کہ پھر ہوں گا میں کتنا محظوظ

حرم سے گفتگو کرتی ہواؤں میں اُڑا دینا

اپنے پرائے سے بے گانہ لگتا ہے

نشاطِ خواب کی صورت مرے ہنر کے چراغ

عجب مقام سمجھاتی ہے نعتِ پاکِ حضورؐ