پائی نہ تیرے لطف کی حد سیّد الوریٰ

پائی نہ تیرے لطف کی حد سیّد الوریٰ

تجھ پر فدا مرے اب وجد سیّد الوریٰ


تری ثناورائے نگاہ و خیال ہے

فخِر رسل ، حبیبِ صمد، سیّد الوریٰ


تو مہر لازوال سرِ مطلعِ ازل

تو طاقِ جاں میں شمعِ ابد سیّد الوریٰ


عرفان و علم ، فہم وزکا تیرے خانہ زاد

اے جانِ عشق، روحِ خروِ سیّد الوریٰ


تو اک اٹل ثبوت خدا کے وجود کا

تو ہر دلیل کفر کا رد، سیّد الورایٰ


ایل جہاں کو ایسی نظر ہی نہیں ملی

دیکھے جو تیرا سایہ قد سیّد الورایٰ


گزرے جو اس طرف سے وہ گرویدہ ہو ترا

یوں عنبریں ہو میری لحد سیّد الورایٰ


درکار مرگ و زیست کے ہر موڑ پر مجھے

تیری پناہ، تیری مدد، سیّد الورایٰ


تائبؔ کی یہ دعا ہے کہ اُس کی بیاض نعت

بن جائے مغفرت کی سند سیّد الورایٰ

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

خاکِ مدینہ ہوتی میں خاکسار ہوتا

سحر کے، شام کے منظر گلاب صورت ہیں

اچانک دشمنوں نےکی چڑھائی یارسولَ اللہ

کر ذکر مدینے والے دا

دستِ قدرت نے عجب صورت بنائی آپ کی

غمِ فُرقت رُلائے کاش ہردم یارسولَ اللہ

مٹیں رنج و غم آزما کے تو دیکھو

تو جب آیا تو مٹی روح و بدن کی تفریق

عشق تیرا نہ اگر میرا مسیحا ہوتا

کہتا ہوں جب بھی نعت مدینے کے شاہ کی