ترا کرم ہے کہ میں سر اُٹھا کے چلتا ہوں

ترا کرم ہے کہ میں سر اُٹھا کے چلتا ہوں

دیئے انا کے ہوا میں جلا کے چلتا ہوں


عجب سُرور ہے آقاؐ تری محبت کا

میں ہوش میں ہوں مگر لڑکھڑا کے چلتا ہوں


بڑے بڑوں کو بھی لاتا نہیں میں خاطر میں

بڑے بڑوں سے نگاہیں مِلا کے چلتا ہوں


قدم قدم پہ جو بیٹھے ہیں خود خدا بن کر

انہی بُتوں کو زمیں پر گِرا کے چلتا ہوں


چھلک نہ جائے کہیں دل تری محبت سے

میں لمحہ لمحہ اسی کو بچا کے چلتا ہوں


خوشی ملے تو میں روتا ہوں ٹُوٹ کر برسوں

وفُورِ غم سے مگر مسکرا کے چلتا ہوں

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

ذکرِ احمد سے تر زباں رکھیے

زمیں کا یہ مقدر ہے

حُبِّ دُنیا نہ دیکھ میری طرف

پلکاں دی سیج وچھا کے میں حال سناواں سوہنے نوں

مسلّط کفر نے کر دی ہے آقاؐ جنگ امّت پر

تیری آس پہ ہم ہیں زندہ میرے پیارے آقاؐ!

میں راہ اوہدے وچ رُل دا ہاں محبوب پیارا نہیں آیا

ہیں ارمان دل میں ہمارے ہزاروں

جھوم کر سارے پکارو مرحبا یامصطَفٰے

چلو دیار نبیﷺ کی جانب