زمیں کا یہ مقدر ہے

زمیں کا یہ مقدر ہے کہ خضرٰی کے مکیں تُم ہو

شبِ اسرٰی دنٰی کے بھی ہوئے مسند نشیں تُم ہو


گناہوں کو جو تکتا ہوں ، لرز جاتا ہے دل میرا

مگر آقا ! میں شاداں ہوں ، شفیع المذنبیں تم ہو


شبِ اسرٰی وہ اقصٰی میں نبی و مرسلیں سارے

کھڑے تھے منتظر جس کے وہ ختم المرسلیں تم ہو


نہیں اکنافِ عالَم میں کوئی شہکار تُم جیسا

’’مشیت جس پہ نازاں ہے وہ فخرالمرسلیں تُم ہو‘‘


کہ جس کے رُخ کے پَرتَو سے وہ ماہ و مہر و انجم بھی

ضیا لیتے ہیں سب کے سب وہی روشن جبیں تُم ہو


صحیفوں میں خدا جس کی بہت قسمیں اُٹھاتا ہے

حبیبِ کبریا جو ہے فقط وہ نازنیں تُم ہو


نہ تُم سا ہو سکا کوئی ، نہ ہوگا بعد میں کوئی

مرے رب نے جسے یکتا بنایا ہے ، حَسیں تُم ہو


تمہاری عظمتیں مانی گئیں اعلان سے پہلے

یہ سب تسلیم کرتے تھے کہ صادق ہو امیں تُم ہو


وہ قُرآں گر پہاڑوں پر اُترتا تو لرز جاتے

اُٹھا جس سے وحی کا بار ، تُم ، صد آفریں تُم ہو


مرے دل میں خُدا ہے یا تمہاری یاد رہتی ہے

خُدا کا ہے کرم مجھ پر کہ میرے دلنشیں تُم ہو


جلیلِ ناتواں پر بھی مرے آقا ﷺ نظر کیجے

کہ ہم جیسے نکموں کے مسیحا بالیقیں تُم ہو

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- مشکِ مدحت

دیگر کلام

دیکھ لی رب کے یار کی صورت

آسماں خاک مدینہ کی سلامی کے لئے

آرزو ہے تو یہی ہے اس گدا کی آرزو

تاجدار عربیا من موہنیا

میکدے سے نہ کوئی جام سے کام

زیارت کر چکی بیدار خوابی یارسولؐ اللہ

حدِ خرد تدبیروں تک ہے

قطرہ مانگے جو کوئی

زمین آپ کی ہے اور آسمان آپ کا

آ گیا میرے لبوں پر المدد یا مصطفےٰ ﷺ