وہ جاری و ساری مسلسل ہیں وہ

وہ جاری و ساری مسلسل ہیں وہ

کسی رخ سے دیکھو مکمل ہیں وہ


زمیں آسماں آپ کے معتقد

وہ ہر راز کے شارحِ منفرد


وہ شاہد وہ منذر بشیر و نذیر

وہ ہادیِ دارین خیرِ کثیر


غلط بندھنوں سے دلائیں نجات

اکیلے بھی وہ رونقِ کائنات


اتالیق قرآن و حکمت ہیں وہ

رفیقِ بلندی و رفعت ہیں وہ


وہ سالار کونین عالم پناہ

وہی ہیں ہمارے تمہارے گواہ


وہ ہر زخم خفیہ کے ہیں چارہ گر

وہ بینائی افروز نظّارہ گر


امیرِ حرم خسروِ بحر و بر

وہ نور علیٰ نور خیر البشر


کریں جس کی سانسوں کا وہ تزکیہ

بدل ڈالیں اندر کا جغرافیہ


وہ اولاد سے باپ ماں سے عزیز

وہ ہر اہل ایماں کو جاں سے عزیز


٭

مہ و کہکشاں کے مسافر حضورؐ


پس غیب و غائب ہیں حاضر حضورؐ

قلم ہیں وہی لوح و کاغذ وہی


ہر اک فلسفے کا ہیں ماخذ وہی

صدا معجزہ ہے جھلک معجزہ


وہ ہیں سر سے پیروں تلک معجزہ

ثنا ہے ادھوری جہاں تک لکھوں


میں اُن کو کہاں سے کہاں تک لکھوں

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- امی لقبی

دیگر کلام

نور پھیلا رچی بسی خوشبو

پھیلیا جد آپ دی سِیرت دا رنگ

رونقِ دو جہاں آپ ہیں

ہو جائے اگر مُجھ پہ عِنایت مرے آقا

ہو رہا ہے انعقادِ بزمِ مدحت شاذ شاذ

شافعِؐ روزِ محشر پہ لاکھوں سلام

غم جہاں سے یہ کہہ دے مری طرف سے کوئی

ہر اک صِفَت کا تری ذات سے حصار کیا

ساقی جے جھلک دکھا دیندا عاقل دیوانے بن جاندے

ہر لحظہ ہے مومن کی نئ شان نئ آن