یہ دھڑکنوں کی درود خوانی کوئی اشارہ ہے حاضری کا

یہ دھڑکنوں کی درود خوانی کوئی اشارہ ہے حاضری کا

صبا کی خوشبو بتا رہی ہے کہ پھر بلاوا ہے حاضری کا


مرے سفر میں ہو دیر شاید ابھی ہے کچھ انتظام باقی

مگر میں دل کو سنبھالوں کیسے کہ دل دوانہ ہے حاضری کا


لگی ہیں ان کے کرم پہ آنکھیں وہ اذن دیں تو نصیب جاگیں

میں اپنی پلکوں پہ چل کے جاؤں یہی سلیقہ ہے حاضری کا


وہ یاد آئی ہے ان کی بستی نظر میں چھائی ہے چاندنی سی

بدن میں خوشبو اتر گئی ہے خیال آیا ہے حاضری کا


چنوں میں پلکوں سےخارِ طیبہ ملوں گا چہرے پہ خاکِ انور

میں اڑ کے پہنچوں در ِ نبی پر کہ شوق جاگا ہے حاضری کا


خموش لب ہیں نگاہیں نیچی ہر اک گدا کی ہے پھیلی جھولی

کرم کی برکھا برس رہی ہے عجب نظارا ہے حاضری کا


ظفر گناہوں کا بار لے کر حضورِ رحمت مآب حاضر

زرِ شفاعت کی بھیک پائی عجیب ثمرہ ہے حاضری کا

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

جہدے جوڑے نوں عرش سینے لگاوے

میرے سوہنے دی مثال تے نظیر کوئی ناں

آتے رہے میخانے مری راہ گذر میں

میں نے اس قرینے سے نعتِ شہ رقم کی ہے

جان و دِل یارب ہو قربانِ حبیبِ کبریا

جل رہے ہیں بدن درد کی دھوپ میں

نہیں جاندے ہجر دے صدمات جھلے یا رسول اللہ

ہُن اتھرو نہیں اکھیاں نے ٹھلنے مدینے دا خیال آگیا

جس کی جاں کو تمنّا ہے دل کو طلب

مدینے جا کے آقا سے ، مرا یہ ماجرا کہنا