رَہرو ہر راہ سے ہٹ کر سُوئے بطحا چلیں

رَہرو ہر راہ سے ہٹ کر سُوئے بطحا چلیں

شکر کا ہر گام پر کرتے ہوئے سجدہ چلیں


ہم غمِ دُنیا کی خاطر آج تک مٹتے رہے

اُن کی خاطر آؤ ٹھکراتے غمِ دنیا چلیں


اُس جگہ کرتے ہیں جان و روح و دل پیہم طواف

دیکھنے ہم بھی جہَانِ عشق کا کعبہ چلیں


ہم نے دیکھی ہے مدینے کی بہارِ بے خزاں

اِن گلستانوں میں اے بادِ صبا ہم کیا چلیں


عشقِ احمدؐ رہنما ہے راہبر ہے شوقِ دل

راہ کے ہر پیچ و خم سے ہو کے بے پروا چلیں


مُضطرب ہے ایک مدّت سے نیازِ بندگی

چل جبینِ شوق سُوئے گنبدِ خِضرا چلیں


اُن کے قدموں سے جُدا ہو کر کہیں تسکِیں نہیں

آؤ اے بہزاؔد پھر پیشِ دَرِ مولا چلیں

شاعر کا نام :- بہزاد لکھنوی

دیگر کلام

تھے عالی مرتبہ سب انبیاء اوّل سے آخر تک

قلم دوات فکر و فن مدام ارجمند رکھ

عیدِ نبوی ﷺ کا زمانہ آگیا

حشر کے دن نفسی نفسی ہے سب کا دامن خالی ہے

سیاں نے مدینے دیاں کیتیاں تیاریاں

ہم درِ یار پہ سر اپنا جھکا لیتے ہیں

ہمراہ اپنے بطحا مجھے لے کے جاؤ لوگو

فضل ربِ العلی اور کیا چائیے

مجھے دَر پہ پھر بُلانا مَدنی مدینے والے

لگا اُن کی عید خیالات میں