آنکھوں میں ترا شہر سمویا بھی

آنکھوں میں ترا شہر سمویا بھی بہت ہے

پر چھوڑ کے شاہا ! اُسے ،کھویا بھی بہت ہے


شاید کبھی آ جائیں وہ سپنے میں اچانک

بے تاب ، اسی آس پہ سویا بھی بہت ہے


ہر زائرِ بطحا کے یہ قدموں سے لپٹ کر

یادوں میں شہا ! آپ کی رویا بھی بہت ہے


دیتے ہیں جواب آپ ، میں سُن پاتا نہیں ہوں

اک ہار سلاموں کا پرو یا بھی بہت ہے


دھوئے گی گناہوں کو شفاعت تری آقا !

گو رو کے گنہ گار نے دھویا بھی بہت ہے


کامل نہ ہو ملاح تو کمزور سفینہ

عصیاں کے سمندر نے ڈبویا بھی بہت ہے


لائیں گے خبر وصل کی ، فُرقت کے یہ آنسُو

پلکوں کو شہا ! ہم نے بھگویا بھی بہت ہے


مٹ سکتا نہیں عشق ترا غیر کے ہاتھوں

پودا ترے عُشّاق نے بویا بھی بہت ہے


جو لوگ مدینے میں جلیل ، اُس کو ملے تھے

’’بچھڑے ہوئے لوگوں کو وہ رویا بھی بہت ہے‘‘

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- مشکِ مدحت

دیگر کلام

نعت گوئی نے سنبھالا دلِ مضطر میرا

چلو عاصیو غمزدو سب مدینے

خود جو لکھّوں تو یہی حسبِ طبیعت لکھّوں

غریقِ ظلمتِ عصیاں ہے بال بال حضور

ایک دُرِ بے بہا ہے یا ہے قطرہ نور کا

پاک نظر ، پاکیزہ دل ، پاکیزہ نام

کبھی درد و سوز بن کر کبھی اشک بن کے آئے

سرکار کی آمد ہے رحمت کی گھٹا چھائی

ہے سدا فتح و ظفر شہرِ مدینہ کی طرف

مِدحتِ نورِ مجسم کیا کریں