اے ہادئ دارین، مقدّر گرِ آفاق

اے ہادئ دارین، مقدّر گرِ آفاق

مخلوق فدا تجھ پہ ہے خالق ترا مشتاق


پائی ہیں تمدّن نے ضیا ئیں ترے در سے

روشن ہیں ترے فیض سے تاریخ کے اوراق


بے مایہ ہے سب کچھ ترے ارشاد کے آگے

وُہ دانش افزنگ ہو یا حکمتِ اشراق


بس تُو ہے فَتَحْناَ لک فتحاکامخاطب

پیروہیں ترے آیہ اَعْلَوْن کے مصداق


اللہ نے کونین کی تخلیق سے پہلے

نبیوں سے لیا تھا تری تائید کا میثاق


اللہ کی بیعت ہے ترے ہاتھ پہ بیعت

تیرے ہی اشارے پہ ہے تقدیر کا اطلاق


انوار ترے ظلمت ِ دوراں کا مداوا

تذکار ترا زہرِ معاصی کو ہے تریاق


تیری ہی طرف سارے زمانے کی نطر ہے

تُو کعبہ افکار ہے تُو قبلہ اشواق


مربُوط ہے دامن سے ترے خیر کی تکمیل

مشرُوط تھی بعثت سے تری عظمتِ اخلاق


تخلیق کا شہکار تری ذات ِ گرامی

ہر نقش ترا شاہد ِ یکتائی خّلاق

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

مرے علو مرتبت منزہ مقام آقاؐ

ہیں وقف جان و دل مِرے اِس کام کے لیے

مہ و خورشید سے روشن ہے نگینہ تیرا

خلق کے سرور شافع محشر صلی اللہ علیہ و سلم

مسلّط کفر نے کر دی ہے آقاؐ جنگ امّت پر

مجھے بھی یا رب قبول کرنا

سراپا عکسِ حق روئے مبیں ہے

ایہہ منگتے تیرے دَر اُتّے لکّھاں آساں لے کے آئے نیں

سیّد انس و جاں کا کرم ہوگیا

محراب کی بغل میں تنا تھا کھجور کا