عطا ہوئے ہیں رفیع جذبے

عطا ہوئے ہیں رفیع جذبے

حضور کے ہیں مطیع جذبے


نظر جھکائے کھڑے ہوئے ہیں

درِ نبی پر جمیع جذبے


ملا ہے اعزازِ نعت جب سے

ہوئے ہیں تب سے وسیع جذبے


قدومِ سرور میں سر خمیدہ

عقیدتوں کے وقیع جذبے


پہنچ گئے ایک پل میں بطحا

محبتوں کے سریع جذبے


خدا سے مانگا ہے عشقِ سرور

وہ سن رہا ہے سمیع، جذبے


وہی ہیں اشفاقؔ خوش مقدر

ملے ہیں جن کو بدیع جذبے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

نہیں ہے کوئی دنیا میں ہمارا یا رسول اللہ

ڈوبتی ناؤ کو رحمت کا سہارا دے دے

مَیں ہُو ں اُمّید وارِ شہِ دوجہاں

سارے نبیوں کے عہدے بڑے ہیں

جو بھی اُن کی گلی میں آیا ہے

جس پہ سرکار دوعالم کی نظر ہو جائے

بن کے خیر الوریٰ آگئے مصطفیٰ ہم گنہ گاروں کی بہتری کے لیے

اے جود و عطا ریز

مینوں سد لے مدینے اک وار سوہنیاں

آنسو مری آنکھوں میں نہیں آئے ہوئے ہیں